Tuesday, July 25, 2023

5 محرم الحرام 1445 تاریخ ِ کربلا

تاریخ ِ کربلا 

سفر عشق

پانچویں قسط...
" پس ان میں سے کوئی تو اپنی جان نذر کر گیا اور کوئی منتظر ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قافلہ رواں تھا۔۔۔
جہاں جہاں سے گزر رہے تھے لوگ ساتھ شامل ہوتے جا رہے تھے۔۔۔
ابھی زبالہ پہنچے تھے تو آپ علیہ السلام کو عبداللہ بن بقطر کی شہادت کی خبر ملی۔۔۔۔ جب اس طرح کی غمگین خبریں آپکو ملیں تو آپ ع نے اپنے تمام لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان کو یہ المناک خبریں دیں اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جو کوئی بھی جانا چاہے وہ جا سکتا ہے اس پر کوئی بھی پابندی نہیں۔۔۔کیونکہ کچھ لوگ محض اس لیے ساتھ ملتے گئے تھے کہ کہیں عراق پر قبضہ ہو گیا ہے۔۔۔ یہ سب سننے کے بعد راستے میں ہی ایسے بے وفا لوگ منتشر ہوگئے۔۔۔۔۔
زبالہ سے چل کر بطن عقبہ پہنچے۔۔۔۔
بطن عقبہ سے حسینی کارواں شراف پہچا۔۔۔۔
یہاں سے صبح کے وقت کوہ ذی حشم کی جانب روانہ ہوئے۔۔۔۔
اور پہاڑوں کے درمیان میں خیمے لگا لیے گئے۔۔۔۔۔۔
یہیں پر حر بن یزید ریاحی تمیمی ایک ہزار کا مسلح لشکر لے کر پہنچ گیا اور سامنے آکر ٹھہرا۔۔۔ حر کو حکومت یزید کی طرف سے آپ کو گرفتار کرنے کا حکم ملا تھا۔۔۔۔۔
ظہر کی نماز کا وقت ہوا۔۔۔ امام نے اذان کا حکم دیا اور اذان کے بعد امام حسین علیہ السلام حر کے لشکر کے سامنے تشریف لےگئے اور اللہ پاک کی حمد بیان کی اور اس کے بعد ان سے فرمایا کہ میں یہاں جنگ کی نیت سے نہیں آیا بلکہ تم لوگوں کے ہی خطوط ملنے پر آیا ہوں اور ان کو راہ حق کی دعوت دی۔۔۔
اس کے بعد حر سے پوچھا کہ نماز الگ پڑھو گے یا ساتھ۔۔۔ جس پر اس نے کہا کہ آپکے ہی ساتھ نماز ادا کریں گے۔۔۔ اور ظہر کی نماز ادا کی گئی۔۔۔۔
ظہر کی نماز کے بعد امام نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور ایک بار پھر مخاطب ہوئے۔۔۔۔ اور فرمایا کہ لوگو اگر تم اللہ سے ڈرو اور اہل حق کو پہچانو تو یہ تمہارے لیے اللہ کی رضامندی کا باعث بنے گا۔۔۔۔پھر آپ نے فرمایا کہ اب تمہاری رائے ان خطوط والی رائے سے بدل چکی ہے۔۔۔
اس پر حر نے کہا کہ ہمیں ان خطوط کا کوئی علم نہیں۔۔۔۔ آپ ع نے عقبہ بن سمعان کو وہ تمام خطوط لانے کا کہا جو کوفے والوں نے بھیجے تھے اور ان تھیلوں کو سب کے سامنے الٹ دیا۔۔۔۔ خطوط کے ڈھیر دیکھ کر حر نے کہا ہم ان خطوں کو لکھنے والے نہیں ہیں۔۔۔ہمیں تو صرف یہ حکم ملا ہے کہ آپکے ساتھ رہیں یہاں تک کہ آپکو کوفہ ابن زیاد تک پہنچا دیں۔۔۔۔۔
اس بات کے جواب میں امام نے فرمایا " تمہاری موت اس سے زیادہ قریب ہے۔۔۔۔ " اور پھر اپنے ساتھیوں کو سوار ہو کر لوٹنے کا حکم دیا۔۔۔۔ جس پر حر نے مزاحمت کی۔۔۔۔
آپ نے فرمایا، تیری ماں تجھے روئے تو چاہتا کیا ہے؟
حر نے کہا، خدا کی قسم اگر آپ کے علاوہ کوئی عرب یہ الفاظ کہتا تو میں ایسے ہی الفاظ سے اس کو جواب دیتا۔۔۔ لیکن میں آپکی والدہ کا ذکر احسن طریقے سے کروں گا۔۔۔۔
امام نے فرمایا، کیا چاہتے ہو۔۔۔حر نے کہا مجھے آپ سے لڑنے کا حکم نہیں ہے۔۔۔۔ بس ابن زیاد کے پاس لے جانے تک ساتھ رہنے کا حکم ہے۔۔۔۔
آپ نے فرمایا، میں اس میں کوئی موافقت نہ کروں گا۔۔۔۔
حر کہنے لگا میں بھی خط لکھتا ہوں آپ بھی یزید یا ابن زیاد کو خط لکھیے شاید کوئی راستہ نکل آئے۔۔۔۔
اس کے بعد امام غدیب اور قادسیہ کے راستے سے بائیں جانب مڑ کر چلنے لگے۔۔۔ حر کا لشکر بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔۔۔۔۔
مقام بیضاء پر امام حسین ، حر اور اسکے ساتھیوں سے ایک بار پھر مخاطب ہوئے۔۔۔۔
اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ کوئی شخص ایک ظالم بادشاہ کو دیکھے جو حرام کو حلال کرنے والا ہو، اللہ کے عہد کو توڑنے والا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کے خلاف عمل کرنے والا ہو اور لوگوں پر زیادتی سے حکومت کرے اور وہ شخص اس بادشاہ کے فعل کو بہ قدر طاقت قولا و فعلا نہ بدلے تو اللہ کو حق پہنچتا ہے کہ اس شخص کو بھی بادشاہ کے مدخل(دوزخ) میں داخل کرے۔۔۔۔
پھر آپ نے ان کو ان کے بھیجے خطوط اور وعدے یاد کروائے اور فرمایا کہ اگر اپنے وعدے پر پورا اتریں تو ہدایت پائیں گے۔۔۔۔ لیکن اگر ایسا نہ کیا اور وعدہ خلافی کی تو یہ کچھ نیا نہیں ہو گا بلکہ پہلے بھی یہی کچھ میرے والد، میرے بھائی اور چچا زاد بھائی مسلم کے ساتھ کر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔ جو بد عہدی کرے گا اس کا وبال اسی کی ذات پر ہے۔۔۔۔ اور مجھے تو اللہ تم سے جلد ہی بے نیاز کر دے گا۔۔۔۔
اس تقریر کو سن کر حر نے کہا کہ میں آپ کو آپ ہی کی جان کے بارے میں خدا یاد دلاتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اگر آپ حملہ کریں گے تو بھی یا آپ پر حملہ ہو گا تو بھی آپ ضرور قتل کردیے جائیں گے۔۔۔
آپ ع نے فرمایا کہ کیا تم مجھے موت سے ڈراتے ہو؟ اور پھر فرمایا کہ میں تمہیں وہی کہوں گا جو بنی اوس میں سے ایک صحابی رسول نے اپنے بھائی سے کہا تھا جب اس نے کہا تھا کہ کہاں جاتے ہو مارے جائو گے؟؟؟ جبکہ وہ صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدد کے لیے جارہے تھے۔۔۔ اور فرمایا :
"میں عنقریب اپنے مقصد کو پورا کروں گا اور موت جواں مرد کے لیے باعث ننگ و عار نہیں جبکہ اس کی نیت نیک ہو اور مسلمان رہ کر جہاد کرے۔۔۔۔"
غدیب الہجانات پہنچ کر مولا نے دور سے طرماح بن عدی کی قیادت میں چار سواروں کو آتے دیکھا جو کہ کوفے کی خبریں لے کر آپ ہی طرف آ رہے تھے اور درجہ ذیل اشعار پڑھ رہے تھے
اے میری اونٹنی میرے ڈانٹنے، ہنکارنے سے نہ گھبرا
اور بہت تیزی سے چل اور صبح ہونے سے پہلے پہنچ
اپنے بہترین سواروں کے ساتھ بہتر سفر کرتے ہوئے
اس شخص کے پاس جا کر اتار
جو کریم الحسب، شریف النسب اور عزت و مرتبے میں بہت بلند
اور سخاوت و فیاضی میں کشادہ دل ہے
اللہ اس کو ایک امر خیر کے لیے لایا ہے
اور وہ اس کو رہتی دنیا تک باقی و سلامت رکھے
یہ اشعار سن کر امام پاک نے فرمایا:
" سنو خدا کی قسم! بے شک مجھے امید ہے کہ اللہ نے ہمارے ساتھ جو کچھ چاہا ہے اس میں ہمارے قتل ہونے یا غالب ہونے میں خیر ہی خیر ہے۔۔۔۔ "
ان کے آنے پر حر نے مزاحمت کی کہ یہ لوگ کوفے سے آئیں ہیں آپ کے ساتھی نہیں ہیں میں انہیں آپ سے ملنے نہیں دوں گا۔۔۔
آپ نے فرمایا یہ میری مدد کے کے لیے آئے ہیں۔۔۔ میں اپنی جان کی طرح انکی حفاظت کروں گا ۔۔۔ اور ویسے بھی تم مجھ سے کہہ چکے ہو کہ جب تک ابن زیاد کا خط نہیں آ جاتا تم بے جا مداخلت نہیں کرو گے۔۔۔۔
حر نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن یہ لوگ آپ کے ساتھ نہیں آئے۔۔۔میں انہیں آپ سے ملنے نہیں دوں گا۔۔۔۔
آپ نے فرمایا اگرچہ میرے ساتھ نہیں آئے لیکن میرے لیے ویسے ہی ہیں اور ان کے برابر ہیں۔۔۔۔ اگر تعرض کیا ان سے تو میں جنگ کروں گا۔۔۔۔
یہ سن کر حر ان سے علیحدہ ہو گیا۔۔۔۔
اس کےبعد امام حسین نے ان سے کوفے کے حالات کے بارے میں پوچھا جس پر مجمع بن عبداللہ عامری نے بتایا کہ بڑے لوگوں کو رشوتیں دی گئیں جس کے بعد وہ حکومت کے ساتھ مل چکے ہیں۔۔۔ باقی عوام تو ان کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن کل وہ بھی تلواریں لیے آپ کے مقابلے میں آ جائیں گے۔۔۔۔
پھر آپ نے قیس بن مسہر الصیداوی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے سارا واقعہ سنایا کہ کیسے بے دردی سے انہیں قتل کر دیا گیا۔۔۔۔ یہ سنتے ہی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اشکوں کے موتی بہنے لگے ۔۔۔تب آپ کے لب پہ یہ آیت جاری ہو گئی:
" پس ان میں سے کوئی تو اپنی جان نذر کر گیا اور کوئی منتظر ہے اور انہوں نے کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا۔۔۔۔"
طرماح ابن عدی نے حالات کے پیش نظر آپ ع کو اپنے ساتھ بلند پہاڑ جو کہ کوہ آجاہ کہلاتا ہے، چلنے کا کہا۔۔۔ اور آپکو رضامند کرنے کی کوشش کی لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم میں اور ان لوگوں میں ایک قول ہو چکا ہے کی وجہ سے ہم واپس نہیں جاسکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوش بخت
24 جولائی 2023
5 محرم الحرام 1445
May be an illustration of 5 people, camel and text
ll reactio

No comments:

Post a Comment