تاریخ ِ کربلا
سفر عشق
چوتھی قسط...
"انا للہ وانا الیہ راجعون"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حصین نے قادسیہ پہنچ کر پڑاؤ ڈالا اور ہر طرف لشکر کو پھیلا کر راستوں کی ناکا بندی کردی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی جاسوسوں کو بھی بھیجا کہ وہ کاروان حسین کی خبر لائیں اور ساتھ ہی یہ خیال بھی رکھا جائے کہ کوفہ والوں سے کوئی رابطہ نہ ہو سکے۔۔۔
مقام حاجر پہنچ کر امام حسین نے اپنے ایک ساتھی حضرت قیس بن مسہر الصیداوی کو ایک خط دے کر کوفے کی جانب روانہ کیا جس میں کوفہ والوں کو اپنی آمد کی اطلاع دی تھی امام نے۔۔۔۔
چونکہ ہرطرف ناکا بندی تھی تو حصین بن نمیر کے لشکر نے حضرت قیس کو روک لیا۔۔۔۔ اور گرفتار کر کے ابن زیاد کی طرف کوفہ بھجوا دیا۔۔۔۔ ابن زیاد نے ان کو قصر امارت کی چھت پر چڑھ کر امام حسین کو گالیاں دینے کا حکم دیا (معاذاللہ )
آپ نے سوچا کہ موقع اچھا ہے لوگوں تک امام کا پیغام پہنچانے گا۔۔۔ لہذا آپ قصر امارت کی چھت پر چڑھے اور حمد باری تعالٰی کے بعد کہا:
" لوگو! سیدنا حسین بن علی، فاطمہ بنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و کے بیٹے اور خلق خدا میں سب سے بہتر ہیں۔۔۔میں ان کا قاصد ہوں۔۔۔ وہ مقام حاجر تک پہنچ چکے ہیں، ان کی دعوت قبول کرو۔۔۔۔ "
اس کے بعد ابن زیاد اور اس کے باپ پر لعنت بھیجی۔۔۔
اس پر ابن زیاد شدید غصے میں آگیا اور حکم دیا کہ اس کو اتنا اونچا اچھال کر پھینکو کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔۔۔ اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔۔۔۔ اور اتنے ظالمانہ طریقے سے پھینکا گیا کہ آپکی ہڈیاں تک ٹوٹ گئیں۔۔۔۔
اس کے بعد بالکل ایسا ہی واقعہ حضرت عبداللہ بن بقطر کے ساتھ پیش آیا۔۔۔ جن کو امام حسین نے حضرت مسلم بن عقیل کی طرف خط دے کر بھیجا تھا۔
امام حسین کا قافلہ آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔
راستے میں ایک کنویں کے پاس پہنچے تو حضرت عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی۔۔۔۔ انکو جب آپ کی آمد کی وجہ معلوم ہوئی تو کوفے والوں کی بے وفائی یاد کر کے امام کو روکنے لگے ۔۔۔ تب امام حسین نے فرمایا:
"ہمیں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔ مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے "
حضرت عبداللہ سے ملاقات کے بعد کاروان حسین نے مقام زرود میں قیام کیا۔۔۔ وہاں آپکو ایک خیمہ نظر آیا۔۔۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ زہیر بن قین البجلی کا ہے جو کہ حج کرنے کے بعد کوفہ جارہے تھے۔۔۔۔۔ آپ نے انہیں ملنے کے لیے بلوایا۔۔۔۔ ان کو مولا کا بلانا پہلے تو پسند نہ آیا۔۔۔۔ پر آپ ع کے پاس پہنچ کر دل کا حال بدل گیا۔۔۔ اسی وقت واپس گئے۔۔ اپنا خیمہ اکھڑوا دیا اور آپ کے خیمے کے نزدیک نصب کروا لیا۔۔۔۔اور آپ بیوی کو طلاق دے دی کہ اپنے بھائی کے ساتھ گھر چلی جائے۔۔۔ اپنے باقی ساتھیوں کو بھی کہہ دیا کہ جو جانا چاہے وہ چلا جائے اور جو چاہے ساتھ دے۔۔۔۔
اس پر وہ سب حیران ہوئے کہ آخر ماجرا کیا ہے؟؟؟
کہنے لگے: سنو! میں تمہیں بتاتا ہوں۔۔۔ ہم نے بلتجر میں جنگ کی تھی۔۔۔ اس میں بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا تھا۔۔۔۔ ہم بہت خوش ہوئے تھے۔۔، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہمارے ساتھ تھے۔۔۔ انہوں نے ہمیں یوں خوش ہوتے دیکھ کر فرمایا:
" ایک وقت آئے گا۔ جب تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر کے جوانوں کے سردار حسین کو پائو گے اور ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمنوں سے جنگ کرو گے تو آج جو تمہیں مال غنیمت کے ملنے پر خوشی ہوئی ہے ۔ اس سے بہت زیادہ خوشی حاصل کرو گے۔۔۔"
پھر وہ امام کے ساتھ رہے یہاں تک کہ کربلا میں بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔۔۔۔
ابھی تک امام کو کوفے کی خبر نہیں تھی کہ وہاں بھیجے گئے مسافر کے ساتھ کیا کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ انکا مسلم کتنی بےدردی سے شہید کردیا گیا ہے۔۔۔۔۔ اس خبر کے بارے میں آپکو کچھ ایسے معلوم ہوا۔۔۔
آپ مقام ثعلبیہ پر پہنچ چکے تھے۔۔۔ عبداللہ بن سلیم اور مذری بن مشعمل الاسدی حج کر کے واپس آرہے تھے اور ارادہ رکھتے تھے کہ فورا امام حسین کے کاروان کی طرف جائیں۔۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ مقام زرود پر پہنچ کر وہ لشکر حسین تک پہنچ چکے تھے کہ ایک شخص کوفہ سے آتا ہوا نظر آیا جو کہ آپ ع ہی کی طرف جا رہا تھا لیکن وہ اچانک کسی اور جانب مڑ گیا۔۔۔ ہم نے سوچا کہ اس سے کوفے کے حالات کے بارے میں پوچھتے ہیں۔۔۔۔ اس کو مل کر پوچھا کہ کون ہو اور نام کیا ہے ۔۔۔ اس نے بتایا میں اسدی ہوں اور میرا نام بکیر بن مثعبہ ہے۔۔۔ ہم نے اسے بتایا ہم بھی اسدی ہیں اور پھر کوفے کے حالات کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔ اس نے بتایا کہ ابھی میں کوفے میں ہی تھا کہ مسلم بن عقیل اور ہانی قتل کر دیے گئے تھے۔۔۔۔۔
اس کے بعد یہ دونوں امام کے قافلے سے ملے اور جب مقام ثعلبیہ پر قیام کیا تو ان کو یہ غم کی خبر پہنچائی۔۔۔۔ جس کو سن کر آپ بہت غمگین ہوئے اور بار بار ان للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔
خوش بخت
23 جولائی 2023
4 محرم الحرام 1445
No comments:
Post a Comment