تاریخ ِ کربلا
سفر عشق
ساتویں قسط...
" مجھ پہ کیوں بند کرتے ہو پانی
کیا محمد ص کا پیارا نہیں ہوں"
صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
اگلے دن 3 محرم الحرام کو عمر ابن سعد مزید چار ہزار کی فوج لیے کربلا پہنچ گیا۔۔۔۔۔۔
کتنا خوف تھا ناں دشمن کو بہتر کے مقابلے میں کئی ہزاروں تعداد میں آرہے تھے۔۔۔۔۔ یہ تو اوقات تھی اس دشمن کی۔۔۔۔۔۔
عمر ابن سعد "رے" (خراسان کا ایک شہر) کی حکومت چاہتا تھا اور اس کو لے کر بہت خودغرض تھا۔۔۔ لالچ اسکے دل و دماغ پر سوار ہو چکی تھی۔۔۔۔ وہ ہر حال میں رے کی حکومت چاہتا تھا اور اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔۔۔۔۔
انہی دنوں میں دیلمیوں نے استبنی پر حملہ کردیا تھا۔۔۔۔ ابن زیاد نے عمر ابن سعدکو لشکر کے ساتھ رے کا گورنر بنا کر دیلمیوں کی سرکوبی کے لیے بھیجا تھا۔۔۔ اور اب اسے ایک سنگدل شخص کی ضرورت تھی ۔۔۔۔ اس لیے اس نے عمر ابن سعد کو واپس بلا لیا۔۔۔۔ وہ آیا تو ابن زیاد نے اسے امام حسین کے قافلے پر حملے کا حکم دیا۔۔۔اور اس کے بعد رے کی حکومت کا وعدہ کیا۔۔۔۔
اس نے سوچنے کے لیے وقت مانگا۔۔۔۔۔ اور کچھ لوگوں نے اسے بہت سمجھایا۔۔۔ان کے سامنے وہ مان جاتا لیکن پس پردہ تیاریوں میں مصروف تھا اور لوگوں کو کربلا جا کر لڑنے کے لیے تیار کرتا پھر رہا تھا۔۔۔ یعنی کے دنیاوی زندگی ایسی پیاری ہو گئی کہ وہ آخرت برباد کر بیٹھا۔۔۔۔ اور چار ہزار کا لشکر لیے جا پہنچا کربلا۔۔۔۔۔
اپنے لشکر میں اس نے ایک شخص کو بلایا اور اسے کہا کہ جائو اور حسین سے پوچھو کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں؟؟؟ اس نے کہا کہ میں نہیں جا سکتا میں تو خط لکھنے والوں میں شامل تھا مجھے شرم آتی ہے۔۔۔۔ پھر ایک کے بعد ایک رئیس شخص کو بلایا لیکن ہر ایک کا ایسا ہی جواب تھا۔۔۔ کوئی بھی تیار نہ ہوا۔۔۔ کثیر بن عبداللہ شعبی جو کہ بڑا بے باک، بد زبان اور بے شرم شخص تھا کہنے لگا میں جاتا ہوں۔۔۔اور اگر حکم ہو تو میں ایک ہی وار میں ان کا کام بھی تمام کر سکتا ہوں۔۔۔ عمر ابن سعد نے کہا میں تمہیں یہ حکم نہیں دیتا کہ انہیں قتل کرو بلکہ تم جائو اور یہ پوچھو کہ کیوں آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔ وہ امام کے خیمے کی جانب چل پڑا۔۔۔۔۔
ادھر امام کے پاس ابو ثمامہ صائدی موجود تھے۔۔۔ امام کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ انتہائی شریر اور خونریز شخص آرہا ہے۔۔۔۔ لیکن جب وہ آیا تو ابن ثمامہ اور کثیر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور وہ پیغام دیے بنا ہی چلا گیا۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ابن سعد نے قرة بن قیس حنظلی کو بلا کر کہا کہ وہ یہ کام کرے۔۔۔ اس نے امام سے آ کر پوچھا جیسے کہ اسے حکم دیا گیا تھا۔۔۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارے شہر کوفہ کے لوگوں نے مجھے خود خط لکھ کر بلایا ہے۔۔۔اگر میرا آنا انہیں ناپسند ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔۔۔ قرة نے امام کا جواب ابن سعد کو آکر بتا دیا۔۔۔۔۔
ابن سعد نے سوچا کہ شاید صلح کی کوئی تدبیر ہو جائے جبکہ وہ بدنصیبی منتخب کر کے آیا تھا۔۔۔ اس نے یہ سوال و جواب اسی مصلحت کے تحت ابن زیاد کو لکھ کر بھیج دیے۔۔۔۔۔
7 محرم
ابن زیاد نے تحریر پڑھ کر یہ شعر کہا
اب جبکہ ہمارے پنجوں نے اسے جکڑ لیا ہے تو نکلنا چاہتا ہے حالانکہ اب کوئی جائے فرار نہیں۔۔۔
اس نے ابن سعد کو جوابا خط لکھا جس میں کہا کہ امام حسین اور ان کے ساتھیوں سے کہو کہ یزید کی بیعت کر لیں۔۔۔اگر وہ بیعت کرلیں تو پھر جو مناسب ہوا ہم وہ کریں گے۔۔۔۔۔
اس کے ساتھ ہی ایک اور خط بھیجا جس میں یہ حکم تھا کہ حسین اور اس کے ساتھیوں اور نہر فرات کے درمیان حائل ہو جائو اور ان پر پانی بند کردو۔۔۔ ایک قطرہ بھی نہ پی سکیں۔۔۔۔۔
اس کے بعد ابن سعد نے عمرو بن حجاج کی نگرانی میں پانچ سو کے لشکر کو نہر فرات پر بھیج دیا کہ امام حسین کے لوگوں میں سے کوئی بھی پانی حاصل نہ کرپائے۔۔۔۔۔۔
بقول شاعر
حاکم کا حکم یہ تھا کہ پانی پیئیں بشر
گھوڑے پیئیں اونٹ پیئیں اہل ہنر پیئیں
سب چرند و پرند پیئیں منع تم نہ کیجیو
پر فاطمہ کے لال کو پانی نہ دیجیئو
No comments:
Post a Comment