Tuesday, July 25, 2023

2 محرم الحرام 1445 تاریخ ِ کربلا


 تاریخ ِ کربلا

 سفر عشق

دوسری قسط...
"شہادت حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالٰی عنہ"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا شبیر ع نے اے غازی وہ دیکھو!
جانب کوفہ میرا مسلم اکیلا ہے
ادھر کوفہ والے امام پاک علیہ السلام کو بار بار خط لکھ رہے تھے جس میں وہ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے تھے اور ساتھ ہی آپ کو کوفہ آنے کی دعوت بھی دیتے کہ آپ آئیں تو کوفی ان کی بیعت کریں۔۔۔۔ اور یہ خط سو دو سو نہیں ہزاروں کی تعداد میں ملے تھے آپ ع کو۔۔۔۔ کوفہ والوں کا رویہ تاریخ میں موجود تھا جو انہوں نے آپ کے والد محترم مولا علی کرم اللہ وجہہ اور بھائی حسن علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا، اس کے پیش نظر آپ نے کوفہ والوں کو خط لکھا جس میں انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجنے کے متعلق لکھا کہ اگر وہ وہاں کے حالات دیکھ کر امام پاک کو خط لکھیں گے تب امام حسین علیہ السلام کوفہ روانہ ہوں گے۔۔۔۔۔
حضرت مسلم اور امام حسین جدا ہوتے ہوئے بہت روئے۔۔۔۔۔۔ اور پھر امام نے ان کو دعاؤں میں رخصت کیا ۔۔۔۔ حضرت مسلم بن عقیل رض جو کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے داماد بھی تھے، اپنے دونوں کمسن بیٹوں محمد اور ابراہیم کو لے کر کوفہ روانہ ہوئے۔۔۔۔۔ لوگ حضرت مسلم کی آمد پر جوق در جوق ان کی پاس جمع ہو کر ان کی بیعت کرنے لگے۔۔۔۔ اور یہ تعداد کئی ہزاروں تک پہنچ گئی۔۔۔۔ یہ عالم دیکھ کر حضرت مسلم نے امام حسین کو خط لکھ دیا اور ان حالات کے پیش نظر اپنا سفر جاری رکھنے اور کوفہ آنے کی دعوت دے دی۔۔۔۔۔۔
ادھر یزید کو اس سب کا علم ہو چکا تھا اور اس لیے اس نے ایک بد لحاظ اور کسی کی بھی پرواہ نہ کرنے والے شخص کا انتخاب کیا چنانچہ اس نے عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا کر بھیج دیا۔۔۔۔کوفہ جاتے ہی اس نے دھمکی بھری تقریر کی اور لوگوں پر ظلم ڈھانے اور حکم عدولی کی صورت میں جان سے مار دینے تک کی باتیں کیں جس سے بہت سے لوگ ڈگمگا گئے۔۔۔ لوگوں کو بیعت کرنے سے اور حضرت مسلم کو پناہ دینے تک سے سختی سے منع کردیا۔۔۔۔۔۔ اس واقعے کے بعد حضرت مسلم ایک محب اہل بیت ہانی بن عروہ کے گھر تشریف لے گئے اور اسے آپکو پناہ دینے کی درخواست کی، پہلے تو ہانی نے منع کیا لیکن آپ رض اس کے گھر داخل ہو چکے تھے تو وہ منع نہ کر سکا اور آپ کو ایک محفوظ کمرے میں چھپادیا۔۔۔۔۔ اب لوگ چھپ کر آپ سے ہانی کے گھر ملنے آنے لگے۔۔۔۔۔ ابن زیاد نے ایک جاسوس کو حضرت مسلم کی تلاش ذمہ لگائی۔۔۔۔۔ وہ جلد ہی ہانی کے گھر پہنچ گیا اور صبح شام کی باتیں ابن زیاد تک پہنچاتا رہا اور پھر ایک دن ابن زیاد نے ہانی کو طلب کرلیا اور خوب ظلم کر کے قید کرلیا۔۔۔۔۔
باہر یہ خبر پھیل گئی کہ ہانی کو قتل کردیا گیا ہے۔۔۔۔ حضرت مسلم لوگوں کو اکٹھے کر کے دارلامارت پہنچ گئے جہاں ابن زیاد موجود تھا۔۔۔۔۔ اس وقت ابن زیاد کے پاس صرف پچاس جبکہ باہر چند ہزار لوگ موجود تھے لیکن اس کے باوجود حضرت مسلم نے پہلے بات چیت سے معاملہ حل کرناچاہا۔۔۔۔۔ تو ابن زیاد نے اندر موجود ایک قاضی کو کہا کہ ہانی کو دیکھ لے کہ وہ زندہ ہے اور باہر والوں کو یہ بتا دے۔۔۔
اب قاضی کو ہانی کی خستہ حالی اور اس پر کیے گئے ظلم و ستم تو نظر آگئے تھے لیکن باہر ابن زیاد کا جاسوس ساتھ آیا تاکہ نظر رکھ سکے۔۔۔تو وہ صرف یہ ہی بتا پایا کہ ہانی زندہ ہے اور اس کے ساتھ ہوئے مظالم نہ بتا سکا۔۔۔
لوگ ہٹنے لگے۔۔۔۔۔ لیکن ہانی کی حالت حضرت مسلم تک کسی طرح پہنچ گئی ۔۔۔ لوگوں کو پھر سے اکٹھا کیا۔۔۔۔ اب کی بار ابن زیاد نے پھر سے لوگوں کو ڈرایا اور یزید کی روانہ کی گئیں فوجوں کا ذکر کر کے المناک انجام سے ڈرایا جس سے لوگ دور ہوتے گئے اور ایک وقت آیا کہ مولا حسین کے پیارے بھائی حضرت مسلم رض اکیلے رہ گئے۔۔۔۔۔ اگلی صبح حضرت مسلم گرفتار کرلیے گئے۔۔۔ اور انتہائی ظالمانہ طریقے سے شہید کردیے گئے۔۔۔۔۔
آپ کے صاحبزادوں محمد اور ابراہیم کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔۔۔۔ لیکن رات کو انہی کی رکھوالی پر معمور شخص کو حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شرم آ گئی کہ انکا سامنا کیسے کرے گا اور رات کو انکو وہاں سے لے کر گھر لے آیا اور صبح سویرے انکو کسی قافلے کے پیچھے لگا دیا جو کہ روانہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔ لیکن وہ بچے قافلے کے ساتھ نہ مل سکے۔۔۔۔ ابھی وہ دونوں بھائی اس بیاباں میں اپنی حالت زار پر رو رہے تھے اور والد محترم کو یاد کر رہے تھے کہ ایک عورت آئی اور ان سے تعارف پوچھنے کے بعد ساتھ لے گئی، اس نے اپنی مالکن کے حوالے دونوں بچے کئے اور وہ مالکن بہت خوش ہوئی۔۔۔۔ اور بچوں کو ایک الگ کمرے میں چھپا دیا۔۔۔۔۔
ادھر ابن زیاد ان بچوں کو ڈھونڈ کر لانے کے بدلے میں بہت بڑے انعام کا اعلان کر چکا تھا کیونکہ اسے ان بچوں کو یزید کے پاس لے جانا تھا۔۔۔۔۔ اس عورت کا شوہر سارا دن بچوں کی تلاش میں رہا۔۔۔ شام کو جب گھر آیا تو بیوی نے اپنے شوہر کی فطرت کو جانتے ہوئے بچوں کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔۔۔۔۔ لیکن رات کو بچے اپنے والد کو یاد کر کے رونے لگے تو اس شخص کی آنکھ کھل گئی اور اس کمرے کی طرف گیا جہاں وہ بچے موجود تھے۔۔۔ صبح ہوتے ہی وہ بچوں کو لے کر روانہ ہوا ابن زیاد سے انعام کی خاطر اور راستے میں ہی بچوں کے سر قلم کر دیے کہ کہیں کوئی ان سے چھین نہ لے۔۔۔
اس طرح وہ معصوم یتیم پسر مسلم شہید ہو کر اپنے بابا سے جا ملے۔۔۔۔
بعد میں ابن زیاد نے اس شخص کو بھی قتل کر دیا تھا۔۔۔
اور ایسے مسلم بن عقیل، مولا حسین کا مسلم اکیلا کوفے میں مار دیا گیا ۔۔۔ اور وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نواسے محمد و ابراہیم بھی بے کسی کے عالم میں اپنے والد محترم کے پاس جا پہنچے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ: ہر واقعہ تفصیلات رکھتا ہے۔۔۔جن پر چیپٹرز لکھے جاسکتے ہیں۔۔۔۔ لیکن میرا مقصد تعارف کروانا ہے اور مختصرا لکھا ہے کہ جو نہیں جانتے وہ پڑھ لیں اور جان سکیں۔۔۔۔ شکریہ)
خوش بخت
21 جولائی 2023
2 محرم الحرام 1445







No comments:

Post a Comment