تاریخ ِ کربلا
سفر عشق
آٹھویں قسط...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام حسین نے اپنے ایک ساتھی عمرو بن کعب بن قرظہ انصاری کے ذریعے ابن سعد کو پیغام بھیجا کہ رات کو دونوں لشکروں کے درمیان مجھے ملو۔۔۔ چنانچہ رات کو ابن سعد بیس ساتھیوں کے ساتھ اور امام بھی بیس ساتھیوں کے ساتھ آئے۔۔۔ پھر دونوں علیحدہ ہو گئے اور گفتگو ہوئی۔۔۔۔۔
امام حسین نے اسے راہ حق پر آنے کی دعوت دی۔۔۔۔ لیکن وہ کہنے لگا مجھے ڈر ہے کہ میرا گھر برباد کردیں گے۔۔۔ امام نے فرمایا میں تجھے اس سے اچھا گھر بنا دوں گا۔۔۔۔ گفتگو جاری رہی لیکن وہ کسی نہ کسی دنیاوی فائدہ اور خوف کا ذکر کرتا رہا۔۔۔۔۔ امام نے فرمایا مجھے اجازت دو جہاں سے آیا ہوں وہیں چلا جاؤں گا یا پھر انہی بیابانوں میں اپنے اہل بیت کے ساتھ زندگی گزار دوں گا۔۔۔۔
عمر ابن سعد جنگ نہیں چاہتا تھا۔۔۔ اس لیے کوئی نہ کوئی تدبیر کر رہا تھا۔۔۔
اس نے ابن زیاد کو خط لکھا جس میں اس نے ایک جملہ یہ بھی لکھا کہ
خدا نے شعلۂ آگ کو بجھا دیا ہے اور اتفاق کی صورت پیدا کردی ہے۔۔۔ اور امام حسین ع سے کی گئی گفتگو کے بارے میں بتایا۔۔۔
ابن زیاد نے جب خط پڑھا تو وہ تھوڑا ابن زیاد کی بات کی طرف مائل ہوا لیکن اس وقت بے حیا انسان شمر بن ذی الجوشن اس کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔ فورا کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔۔۔ تم حسین کی شرطوں کو پورا کرتے ہو جبکہ وہ ابھی تمہاری گرفت میں ہے۔۔۔ واللہ وہ اگر یہاں سے تمہاری اطاعت کیے بغیر چلا گیا تو تو یہ اس کے غالب و قوی اور تمہارے مغلوب اور کمزور ہونے کا سبب بنے گا۔۔۔۔ اسے ایسا موقع ہرگز نہ دو ۔۔۔ اس میں سراسر تمہاری ذلت ہے۔۔۔ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ حسین اور اس کے تمام ساتھی تمہارے حکم کی اطاعت میں اپنی گردنیں جھکا دیں۔۔۔ پھر اگر تم ان کو سزا دو تو تمہیں اس کا حق ہے اور اگر معاف کردو تو اس کا اختیار بھی تمہیں ہے۔۔۔ خدا کی قسم! مجھے تو یہ معلوم ہوا ہے کہ حسین اور ابن سعد اپنے لشکروں کے درمیان بیٹھ کر رات رات بھر باتیں کرتے ہیں۔۔۔
یہ سب ستنے ہی ابن زیاد نے کہا تم مجھے اچھا مشورہ دیا ہے اور اس کے بعد ابن سعد کو خط لکھا جس میں لکھا تھا:
" میں نے تمہیں اس لیے نہیں بھیجا کہ تم حسین کو مہلت دیتے رہو اور اس کی سفارش کرکے اس کی سلامتی کے طلبگار بنو۔۔۔ دیکھو ! اگر حسین اور اس ساتھی میرے حکم پر گردنیں جھکا دیں تو ان سب کو اطاعت گزاروں کی طرح میرے پاس بھیج دو۔۔۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان پر حملہ کردو اور ان کو قتل کر کے ان کے سر جدا کردو اور ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑا کر روند ڈالو کیونکہ وہ اسی سلوک کے مستحق ہیں۔۔۔ اگر تم نے میرے حکم کے مطابق عمل کیا تو تم کو وہ جزا ملے گی جو ایک مطیع و فرمانبردار کو ملنی چاہئے اور اگر یہ کام نہیں کرنا چاہتے تو ہمارے لشکر کو شمر کے حوالے کر کے تم اس سے الگ ہو جائو۔۔۔ہم نے شمر کو اپنے احکام دے دیے ہیں وہ ہمارے احکام کو پورا کرے گا۔۔۔۔ "
جب ابن زیاد نے یہ خط شمر کو دیا اس وقت عبداللہ بن ابی المحل بن حزام بھی ابن زیاد کے پاس موجود تھا۔۔۔ اس کی پھوپھی حضرت ام البنین(فاطمہ بنت حزام) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زوجہ تھیں۔۔۔ اور ان کے چار بیٹے تھے حضرت عباس، حضرت عبداللہ، حضرت جعفر اور حضرت عثمان۔۔۔
عبداللہ بن ابی المحل نے درخواست کی کہ اگر مناسب سمجھا جائے تو ان کے لیے امان لکھ دیں۔۔۔۔ ابن زیاد نے امان نامہ لکھ دیا جو کہ عبداللہ نے اپنے غلام کے ہاتھوں بھانجوں کو بھجوا دیا۔۔۔۔
جب حضرت عباس اور ان کے بھائیوں کو خط ملا تو بہادر جوان بولے ہمارے ماموں کو سلام کہنا اور یہ کہ ہمیں تم لوگوں کی امان کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی کی امان (درکار ہے جو) ابن زیاد کی امان سے بہتر ہے۔۔۔
شمر بھی ابن سعد کی طرف خط لیے پہنچ گیا۔۔۔۔ ابن سعد نے خط پڑھ کر بہت غصہ کیا۔۔۔۔ اور شمر کو کہنے لگا کہ مجھے لگتا ہے کہ تم نے ہی ابن زیاد کو باتیں کر کے معاملے کو بگاڑ دیا ہے۔۔۔۔
شمر نے کہا اب تمہارا کیا ارادہ ہے؟؟؟ تم حسین اور اس کے ساتھیوں کو قتل کرو گے یا نہیں؟؟؟ اگر نہیں تو لشکر کو میرے حوالے کردو۔۔۔۔
ابن سعد کے پاس موقع تھا کہ اپنی عاقبت سنوار لیتا ۔۔۔ لیکن رے کی حکومت نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی اور وہ اولاد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خون بہانے کے لیے تیار ہو گیا اور اس نے کہا ۔۔۔
" میں امیر کے حکم کی تعمیل کروں گا۔۔۔ "
شمر جب مولا کے لشکر کے سامنے آیا تو کہنے لگا۔۔۔۔ ہماری بہن کے بیٹے کہاں ہیں؟؟ یہ سن کر جب حضرت عباس اور ان کے بھائی سامنے آئے تو ان سے کہا۔۔۔
ہماری بہن کے بیٹو! تمہارے لیے امان ہے۔۔۔۔۔
غیرت مند جوان بولے
تجھ پر اور تیری امان پر اللہ کی لعنت ہو، تو ہمیں امان دیتا ہے اور فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے امان نہیں۔۔۔۔۔
27 جولائی 2023
8 محرم الحرام 1445
No comments:
Post a Comment